۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 397783
1 اپریل 2024 - 13:28
مولانا سکندر علی ناصری

حوزہ/ حکومت کی زمہ داری ہے کہ عوام کی مشکلات کے حل کے لیے قدم اٹھاییں امام علی کی نگاہ میں عوام کی رضایت وہاں تک ہے جہاں یہ احکام الہی سے ٹکراو نہ ہو اگر تصادم کا خطرہ ہو تو ایسی مواقع پر اولویت اور ترجیح احکام الہی کو حاصل ہے اس بناء پر امام علی علیہ السلام کی نظر تمام چیزوں پر فوقیت اور اولویت حق کو حاصل تھی تمام مصلحتوں پر بھی حضرت حق کو ترجیح دیتے تھے۔

تحریر: مولانا سکندر علی ناصری

حوزہ نیوز ایجنسی | ہر دور میں حکمران ہمیشہ سے ،خواہ شخصی مفادات کے لیے ہو یا نہ ہو، اپنی رعیت کی رضایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن عوام کی رضایت حاصل اس وقت ہوگی کہ یہ حکمران مشکلات اور سختیوں میں غیور عوام کے کنار میں رہے ہوں اور مشکلات کے مواقع پر انہیں ان کی زندگی کی بنیادی ضروریات مھیا کی ہوں تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے امام علی علیہ السلام کی حکومت ایک بےمثال عوامی حکومت تھی کہ جس میں عوام کو بنیادی اور اساسی ضروریات کسی بھی تفریق اور امتیاز کے بغیر یکسان طور پر حاصل تھیں آپ کی حکومت کے متعلق تاریخ میں ایاہے کہ کوفہ میں اقتصادی اور مالی حالات کے لحاظ سے سب سے کمزور افراد کو بھی زندگی کی تیں بنیادی اور اساسی ضروریات حاصل تھیں کہ لوگ بھترین گندم کھاتے تھے،اپنے گھر کی چھت کی نیچھے سوتےتھے اور فرات کےپانی پیتے تھے اس وقت کے کمترین امکانات کے باوجود کوفہ میں کوئی بھی شخص امام علی کے دور میں بھوکا نہیں سوتا تھا۔

لیکن ہمارے دور میں ذیادہ امکانات ہونے کے باوجود کتنے خانوادے ایسے ہونگے جن کے پاس پیسے نہیں ہیں، گندم نہیں روزگار نہیں ہونے کی وجہ سے، اور حکمران کی تعیشات ،ان کے اسراف، فضول خرچیان ان کے پرٹوکول پر ہونے والے خرچے ان کی ڈیکوریشن پر ہونوالے اخرجات کی وجہ سے،رات کو بھوکے سوتے ہونگے حالات ہماری ملک کی اس حد تک ان حکمرانوں نے خراب اور برباد کردیا ہے غیور عوام اٹا لینے کی خاطر اپنے جان سے دھو بیٹھتے ہیں یہ سوگوار خانوادہ روئیں بھی تو کس کو؟ ایا اپنے عزیز سے جدائی پر یا اپنے بھوکے بچوں کی بھوک پر یا وطن عزیز کی حالت پر؟ یا ان حکمرانوں کی بے مھر و بےتوجہی پر واقعا ملک کے ارباب اختیار فوری طور پر ان مسائل اور مشکلات کا حل نکالیں اور غیور عوام کو ان کے زندگی کے بنیادی حقوق دیں۔ امام علی علیہ السلام کی حکومت اگر چہ اس دوران سیاسی اجتماعی اور سماجی مسائل اور مشکلات میں گھری ہوئی تھی اس کے باوجود اپنی رعیت کی رضایت جلب کرنے میں ان کی مشکلات کو حل کرنے اور ان کی کم از کم بنیادی ضروریات فراھم کرنے میں ایک مثالی حکومت تھی امام عالی مقام نے اپنے گونروں کو اس اہم ھدف کے حصول کے لیے کچھ اہم دستور جاری کے پہلا یہ کہ وہ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہوں اور ان کے ساتھ نشست و برخاست کا اہتمام ہو، قریب سے ان کی مشکلات کا مشاہدہ کریں اور لوگ بھی کسی ہچکچاہٹ کے ان سے سوالات کریں اپنے مسائل کو آزادانہ بیان کریں۔

آپ نے اپنے گونر مالک اشتر کو نامہ میں جس چیز کی ذیادہ تاکید کی اور جس پر ذیادہ اصرار کیا وہ لوگوں سے میل ملاپ اور ارتباط کا تھا آپ نے فرمایا اے مالک !عوام سے ذیادہ دیر تک دور نہ رہیں اور امام نے ان سے قطع تعلق کی وجہ سے وجود میں آنے والے کچھ سیاسی ، سماجی اور اجتماعی دوررس برے نتائج اور نقصانات کی جانب اشارہ بھی کیا کہ ذیادہ دیر عوام سے دوری ملک کے ،سیاسی سماجی اجتماعی مسائل سے حکمران کو بےخبر کر دیتی ہے اور اس کی وجہ سے پس پردہ حقائق ان سے مخفی رہتے ہیں جس کی بناء پر اہم اور ضروری کام کو انہیں چھوٹےاور چھوٹے کام کو بڑے، برے کو اچھے اور اچھے کو برے دیکھائی دیتا ہے باطل حق اور حق باطل کی شکل میں نظرآنے لگتا ہے حکمران طبقہ کو چاہے کہ اپنے عوام کے ساتھ بہت رحم دل مھربان ہوں اپنی رعیت سے بے لوث محبت کرتے ہوں حکمران اکثر اس عھدہ پر پہنچنے سے قبل عوام دوست ہونے کا نعرہ لگاتے تھکتے نہیں جب اس مقام و منصب پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو انہیں عوام یاد ہی نہیں رہتی ہیں وہ ان کی خبر تک نہیں لیتے ہیں بلکہ انہیں اپنی فکر کی پڑی رہتی ہے اپنی مشکلات حل کرنے، اپنی تنخواہوں کو بڑاہنے اور اپنے پرٹوکول کی فکر میں ہوتے ہیں اگر حکمران طبقہ اپنے عوام سے مھربان ہوں تو یہ ہو شربا مہنگاہی نہیں ہوتی ۔عوام کو صحت ،تعلیم ، بےروزگاری، فقر اور تنگدستی جیسے مسائل کا سامنے نہیں کرنے پڑتےکیوں کہ خداوند متعال نے قران مین فرمایا ہے انا خلقنا کل شئ بقدر یعنی بے شک ہم نے ہر چیز کو اپنے انداذہ کے مطابق بنایا ہے اگر اس کرہ خاکی کو اس پر مجود تمام مخلوقات کے ساتھ اللہ تعالی نے ایک منظم سیسٹم کے ماتحت خلق فرمایا ہے تو پھرکائنات میں کسی چیز کی کمی نہیں ہونی چاہے اور ذات سبحان کمال مطلق ہے تمام خوبیون کا سر چشمہ ہے اس پاک ذات نے اس کائنات کو بنایا ہے تو یہ کائنات بھی بے عیب ہے، نقائص سے پاک ہے پھر یہ کمی اور یہ سختیان یہ مشکلات کہاں سے ہیں ؟

یہ مشکلات ہماری اپنی نالائقی،کوتاہی،سستی،مفاد پرستی اقرباپروری اور تعصب ہیں کہ جن کی وجہ سے غریب عوام کا جینا بھی حرام ہوچکا امام علی دنیا میں وہ بے مثال بے نظیر حاکم تھے کہ آپ کے بھائی عقیل افراد خانوادہ ذیادہ ہونے کی بناء پر آپ سے بیت المال سے ذیادہ دینے کی التماس کرتا ہے تو آپ نے اپنے بھائی کو بھی وہی حصہ اور وہی مقدار دیتے ہیں جو دوسروں کو دیتے تھے اس میں آپ نے اپنوں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں رکھا سب کو بیت المال سے مساوی حصہ ملتا تھا۔ارباب اختیار ہمیشہ سے لوگوں کی خدمت اور ان کی مشکلات کو حل کرنے میں مخلص ہوں کیون کہ اسلام کی نگاہ میں اقتدار اور حکومت اللہ کی طرف سے ایک امانت ہے لذا خداوند متعال کی خوشنودی کو مد نظر رکہیں اس نکتہ کی جانب حضرت علی علیہ السلام اشارہ کرتے ہیں وایاک و المن علی رعیتک باحسانک او التزید فیمان کان ۔۔ہوشیار! "لوگوں پر خدمات کے زریعے احسان نہ جتائیں یا جو کچھ ان کے لیے انجام دیا اس کو بڑا نہ بنایں یا وعدہ دیں تو پھر وعدہ خلافی نہ کریں" جب کہ ہمارے معاشرے میں بڑا کام کوئی کرتا نہیں کوئی معمولی کام کو بڑا چڑا کر پیش کرتاہے حضرت علی علیہ السلام اس کے بلکل مخالف تھے اس لیے آپ کی سیاست میں لوگوں کی ضروریات زندگی کے پایدار حل تیں چیزوں میں رکھا۔ اپنی خدمات کو چھوٹے جلوہ دیں تاکہ خود ہی شکوفای دیں اور بڑے ہو سکے۔ خدمات مخفی رکھیں تاکہ خود ہی لوگوں میں ظاہر ہوں۔ خدمات فوری انجام دیں تاکہ اس کی لذت محسوس ہواپنی رعیت کے ساتھ برتاو نرم و ملائم ہو۔ سخت گیری نہ ہو حضرت علی علیہ السلام نے ایک جگہ فرماتے ہیں اگر لوگ مالیات کی سختی اور سنگینی کی شکایت کریں ، یا آفات ذدگی یا خشک سالی وغیرہ کی وجہ سے شکایت کریں تو ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں مالیات لینے میں ان کے ساتھ سخت گیری نہ کریں خراج میں ان کو تخفیف دیں تمہیں پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ یہ تخفیف در حقیقت تمہارے شھروں کی آبادی اور تعمیر و ترقی کے لیے ایک زخیرہ ہے علی کی نگاہ میں خراج کا محور عوام ہے اگر ان سے خراج لیتے ہیں تو خود عوام پر خرج کرنے کیے لیے ہے اس وقت خراج دینے والے خود مشکلات میں ہیں تو اس وقت انہیں کمک اور مد ہونے کی ضرورت ہے۔

لہذا حکومت کی زمہ داری ہے کہ عوام کی مشکلات کے حل کے لیے قدم اٹھاییں امام علی کی نگاہ میں عوام کی رضایت وہاں تک ہے جہاں یہ احکام الہی سے ٹکراو نہ ہو اگر تصادم کا خطرہ ہو تو ایسی مواقع پر اولویت اور ترجیح احکام الہی کو حاصل ہے اس بناء پر امام علی علیہ السلام کی نظر تمام چیزوں پر فوقیت اور اولویت حق کو حاصل تھی تمام مصلحتوں پر بھی حضرت حق کو ترجیح دیتے تھے معیار حق ہونے کی وجہ کچھ افراد نے اپ سے عہد و پیمان کو ٹوڑا آپ کو تنہا چھوڑا یہ بھی حق کے اجراء کے راہ میں آپ کو روک نہ سکا آپ ہمیشہ سے عدل اور انصاف معاشرے میں قائم کرنے کی سعی و تلاش کرتے رہے اور اسی ھدف میں آپ نے انیس رمضان مبارک کو مسجد کوفہ میں نماز فجر پڑہتے ہوئے دنیا کا سفاک ترین فاسق شخص کے ہاتھون ضربت کھائی اور ایکیس رمضان مبارک کوآپ نے جام شھادت نوش کیا اور یہ جملہ آپ کے بارے میں ہمیشہ رہ گیا حضرت علی علیہ السلام کو آپ کی شدت عدالت کی وجہ سے شھید کیا گیا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .